Tuesday, 16 August 2011

نام نہاد اشرف المخلوقات بمقابلہ مہذب دنیا کے کتے۔


ایک معاشرہ جانورں کو انسانیت سے قریب کر رہا ہے، دوسرا معاشرہ انسانوں کو جانوروں میں تبدیل کر رہا ہے، دنیا میں کچھہ بھی بے سبب نہیں ہوتا، کوئی اگر آج سورج کو شٹ اپ کال دے رہا ہے تو اسکی بھی وجہ ہے، اور کوئی اگر آج اپنی ہی زمین پر اپنے ہی جانوروں سے بھی بدتر سیاسی اور مذہبی رہنماوں کے ہاتھوں کھلونا بنا ہوا سیلانی اور ایدھی کے مفت دسترخوان سے فیضیاب ہورہا ہے تو یہ بھی بے سبب نہیں ہورہا اور اس بات میں کوئی شائبہ نہیں کے انشاءاللہ انکی آنے والی نسلوں کا انجام بھی ان سے مختلف نہیں ہوگا۔
یہ کیسے ممکن ہے کے ایک قوم دن رات ایمانداری کے ساتھہ محنت کرے اللہ کے فرمان کے مطابق علم حاصل کرے غور و فکر کرے تحقیق کرے، اپنا آج اپنی آنے والی نسلوں کے کل پر قربان کر دے۔ اور ایک قوم جو علم کے معنیٰ ہی بدل دے اسے دینی اور دنیاوی علم میں تبدیل کردے، اور پھر دنیاوی علم کو ہنر کہہ کر لفظ علم کی توہین کرے، اپنی حالت بدلنے کے لئیے تدبیر کے بجائے صرف دعاوں کا سہارا لے، معجزوں کا انتظار کرے، چلے چالوں اور منتوں میں اپنے مسائل کا حل تلاش کرے، جدیدیت کو کفر سمجھے، اجتہاد کے دروازوں پر قفل ڈال کر چابی سمندر برد کر دے، جس معاشرے میں عالم وہ کہلاتا ہو جسے جدید علوم کے نام تک نہ پتہ ہوں، سیاسی و مذہبی رہبر وہ کہلاتا ہو جسکی منزل صرف اور صرف پیسہ ہو، دھرنے، ریلیاں، احتجاج، ہڑتالیں، جن بندروں کی کوالیفیکیشن ہو۔
تو ایسے جانورں کے ہجوم اور ایک ایسی قوم کا جو سیاروں سے معدنیات نچوڑ کے لارہی ہو ان دونوں کا حال اور مستقبل ایک جیسا کیسے ہوسکتا ہے؟۔ اس معاشرے کے شہری کس طرح کی مہذب زندگی جی رہے ہیں اس پر تو بات کرنا ہی فضول ہے، چلیں انکے کتوں سے موازنہ کرتے ہیں اپنے معاشرے کے غیور با شعور ہجوم کی زندگی کا۔
یورپ میں کتوں سے محبت ایک جنون کی حیثیت رکھتی ہے، اور وہ لوگ اس جنون میں ہمارے مجنوں نما عاشقوں سے بھی آگے نکل جاتے ہیں، محبت محبت ہوتی ہے انسان سے کی جائے یا جانور سے، کتا بھی اللہ کی ہی مخلوق ہے اسلئیے اللہ کی مخلوق سے محبت کرنا مثبت سوچ کی علامت ہے، اسلام میں کتے کو ناپاک جانور قرار دیا گیا ہے پھر بھی اسے حفاظت کی نیت سے گھر کے باہر یا کسی الگ تھلگ جگہ پر پالا جاسکتا ہے۔
یورپ میں اسطرح کا کوئی نظریہ نہیں اسلئیے وہ لوگ کتوں کو اپنے گھر کے ایک فرد کی طرح ہی رکھتے ہیں ساتھہ سلاتے ہیں ساتھہ کھلاتے ہیں غرض یہ کہ محبت کرتے ہیں تو پھر محبت کا حق بھی ادا کرتے ہیں، جائزہ لیتے ہیں کے وہ کیسے حق ادا کرتے ہیں کتوں کی محبت کا اور انسان تو انسان انکے کتے کسطرح سے ہمارے انسانوں سے بھی زیادہ بہترین زندگی گزار رہے ہیں۔
کتوں کے قیمتی غذاء کی مثال دینے کے لئیے محض تین تصویریں ہی لگائی ہیں ان میں سے ہر پیکٹ کم از کم پچاس ڈالر کا ہے، جو انکے کتوں کی چار سے پانچ دن کی غذا ہوتی ہے، یعنی ایک مہینے کی غذاء بنی تقریباَ چھہ پیکٹس، چھہ پیکٹس کو اگر پچاس ڈالر سے ضرب دیں تو تین سو ڈالر اور اگر اسے چھیاسی سے ضرب دیں تو یہ تقریباَ چھپیس ہزار روپے ماہوار بنتے ہیں۔ کتوں کے ہر روز نہلایا بھی جاتا ہے، پیمپر بھی باندھے جاتے ہیں انکے، ایک شیمپو کی قیمت دس ڈالر سے شروع ہوکر سو ڈالر اور اس سے بھی زیادہ ہوتی ہے، نیچے دی گئی تصویروں میں جو شیمپو ہے اسکی قیمت پچاس ڈالر ہے، یعنی ہمارے تقریباَ چار ہزار روپے۔ کچھہ تصویریں انکے کتوں کے گھروں کی بھی ہیں جنکی بناوٹ اور خوبصورتی دیکھہ کر اندازہ لگایا جاسکتا ہے کے انکے کتے کیسی شاہانہ زندگی بسر کرتے ہیں۔ 
         
   
یہ ہے وہ معاشرہ جو جانورں کو انسانیت سے قریب کر رہا ہے، وہ جانورں کو ٹرینگ دے کر ان سے وہ وہ کام لے رہے ہیں جو ہمارے جیسے معاشرے میں نام نہاد اشرف المخلوقات سے نہیں لئیے جارہے۔ اب دیکھئیے کے  ہمارے مستقبل کے آئن اسٹائن کیا کر رہے ہیں؟۔
 
یہ ہوتا ہے فرق حقیقت اور جذباتیت میں، چونسٹھہ سال سے روٹی کپڑا اور مکان کی سیاست کرنے والے سیاستدانوں اور مذہب کے نام پر کاروبار کرنے والے درندے مذہبی رہنماوں نے یہ سب کچھہ دیا ہے پاکستانیوں کو۔
انکے ایک کتے کا ماہانہ خرچہ تقریباَ پاکستانی تیس سے پینتیس ہزار بنتا ہے، جبکہ ہمارے پاکستان میں ان انسان نما جانوروں کی  کم سے کم تنخواہ سات ہزار رکھی گئی ہے، سات ہی کیا پندرہ بیس ہزار کمانے والا بھی کیا تیر مار لیتا ہے جو بیس ہزار کما رہا ہے وہ بھی انکے کتے سے بد تر زندگی گزارنے پر مجبور ہے، تف ہے ایسے جانوروں پر کے جانتے بھی ہیں کے ہمارے ان سیاسی اور مذہبی رہنماوں نے ہمیں مہذب دنیا کے کتوں سے بھی بدتر زندگی دی ہوئی ہے جینے کے لئیے پھر بھی اپنے ہی قاتلوں کو سروں پر بٹھا کر اعوانوں تک چھوڑ کر آتے ہیں.
حدیث ہے کے مومن ایک بل سے دو بار نہیں ڈسہ جاسکتا۔ مگر یہ ہر روز ڈسے جاتے ہیں، کبھی مذہب کے نام پر، کبھی قومیت کے نام پر، کبھی جہاد کے نام پر، کبھی لسانیت کے نام پر، کبھی فرقہ پرستی اور مسلک پرستی کے نام پر، مگر پھر بھی ان جانوروں کو ہی اپنا خدا بنائے رکھتے ہیں، کوئی جلسہ ہو، کوئی دھرنا ہو، کوئی ریلی ہو، کوئی نام نہاد احتجاج ہو، یہ جانور بڑھہ چڑھہ کر حصہ لیتے ہیں، اپنے ہی قاتلوں کے ہاتھہ مظبوط کرتے ہیں۔
میری دعا ہے کے اللہ پاکستانیوں کو مہذب دنیا کے کتوں کے برابر کے حقوق ہی دے دے انکے کتوں کے برابر سہولتیں دے دیں۔ کیوں کے جو اس قوم کے اور اس قوم کے نام نہاد سیاسی اور مذہبی رہنماوں کے رویے ہیں جو گھٹیا سوچ ہے وہ تو انہیں کم از کم مہذب دنیا کے انسانوں کے برابر نہیں آنے دے گی۔
ایک معاشرہ جانورں کو انسانیت سے قریب کر رہا ہے، دوسرا معاشرہ انسانوں کو جانوروں میں تبدیل کر رہا ہے، دنیا میں کچھہ بھی بے سبب نہیں ہوتا، کوئی اگر آج سورج کو شٹ اپ کال دے رہا ہے تو اسکی بھی وجہ ہے، اور کوئی اگر آج اپنی ہی زمین پر اپنے ہی جانوروں سے بھی بدتر سیاسی اور مذہبی رہنماوں کے ہاتھوں کھلونا بنا ہوا سیلانی اور ایدھی کے مفت دسترخوان سے فیضیاب ہورہا ہے تو یہ بھی بے سبب نہیں ہورہا اور اس بات میں کوئی شائبہ نہیں کے انشاءاللہ انکی آنے والی نسلوں کا انجام بھی ان سے 
مختلف نہیں ہوگا۔
 by fikrepakistan

No comments:

Post a Comment