Tuesday, 16 August 2011

مومن کی فراست سے مومن کی جہالت تک


ازل سے اصول ہے بڑی مچھلی چھوٹی مچھلی کو کھاتی ہے، طاقتور کمزور کو دباتا ہے، طاقتور کا بےرحم رویہ قابل مذحمت، لیکن کمزور رہنے پر اسرار اس سے بھی زیادہ قابل مذحمت ہے، حدیث ہے کہ مومن کی فراست سے ڈرو، جبکہ آج دنیا مومن کی جہالت سے ڈرتی ہے۔
امریکہ ظالم ہے امریکہ بدمعاش ہے امریکہ طاقت کے نشے میں مست کمزوروں کے کچل رہا ہے، صرف دوھائیاں ہیں ماتم ہے کھوکھلے نعرے ہیں بے ہنگم چیخ و پکار ہے، کھوکھلی بد دعائیں ہیں، مومن کی کھوئی ہوئی میراث ( علم ) کہیں نظر نہیں آرہا تاریخ کے صفحے پلٹ کر طاقت کا مظاہرہ دیکھتے ہیں۔
مسلمان اسپین سے لے کر افریقہ تک کیا لینے گئے تھے؟ ہم قرآن کے حکم کی تکمیل کے لئیے گئے تھے اللہ کے دین کو پھیلانے کے لئیے گئے تھے لیکن کل ہم طاقتور تھے تو کفار کی نظر میں ہم ظالم تھے، آج وہ طاقتور ہے تو آج وہ ہماری نظر میں ظالم ہے، طاقت کا یہ کھیل صدیوں پرانہ ہے طاقتور کی طاقت کو گالی دینے کے بجائے اپنی کمزوری پر توجہ دو، آدھی سے زیادہ دنیا پر پھیلی ہوئی سلطنت عثمانیہ بغیر طاقت کے بغیر علم کے بغیر فراست کے ہی قائم ہوگئی تھی کیا؟.
ہے کوئی بڑے سے بڑا عالم جو اس طرف سوچے کے مومن کی فراست مومن کی جہالت میں کیسے تبدیل ہوگئی ؟ اب دوبارہ طاقت کا حصول کیسے ممکن ہے؟ سادہ سا جواب ہے، مومن کی کھوئی ہوئی میراث (علم) کے حصول کی تگ و دو سے، مگر جہاں علم کو ہنر کا نام دے دیا جائے، جہاں مادہ جو کے اللہ کے بےشمار نعمتوں میں سے ایک نعمت ہے اسکے ترقی کو کفر قرار دیا جائے اسے دنیا کی محبت اور آخرت سے غفلت کا سبب قرار دیا جائے، جہاں ذہنوں کو ایک مخصوص خول میں بند کردیا جائے، گھوڑے کی آنکھوں پر آئی کیپ لگایا جاتا ہے تاکے وہ ادھر ادھر نہ دیکھہ سکے صرف سیدھا یعنی ایک ہی سمت میں دیکھہ سکے، جہاں عالموں کے روئیے یہ ہوں کے پوری امت کی آنکھوں پر اپنے اپنے مسلک اپنے اپنے فرقے کا آئی کیپ لگا دیا گیا ہو تاکے امت صرف وہ ہی کچھہ دیکھہ سکے جو یہ عالم حضرات اپنے فرقے اور اپنے مسلک کے حساب سے دکھانا چاہتے ہوںوہاں بھلا تبدیلی کیسے ممکن ہے؟.
 آج آکسفورڈ یونیورسٹی میں اسلامیات میں پی ایچ ڈی کروائی جاتی ہے کیا پاکستان میں کرسچنٹی میں پی ایچ ڈی ممکن ہے ؟ ڈرو اس وقت سے جب کفار ہم سے برابری کی سطح پر معاملات کرنے پر اتر آئیں، آج سعودیہ عرب میں کفار کی تو بات ہی چھوڑ دیں کسی مسلم ریاست کے شہری کو یہ حق حاصل نہیں ہے کو وہ سعودیہ عرب کی شہریت حاصل کرسکے، جائیداد بنا سکے، تنہا کاروبار کرسکے، شادی کرسکے، حکومت کا حصہ بن سکے یا صرف ووٹ ہی ڈال سکے، جبکہ یہ تمام سہولیات کفار ممالک میں مسلمانوں کو حاصل ہیں، مسلمان انکے ملک کی شہریت بھی لے سکتا ہے، جائیداد بھی بنا سکتا ہے، تنہا کاروبار بھی کرسکتا ہے، شادی بھی کرسکتا ہے، ووٹ بھی دے سکتا ہے انکی حکومت کا حصہ بھی بن سکتا ہے۔
صرف اتنا ہی فرض کرلیں کے آج امریکہ اور یورپین ممالک پابندی لگا دیں مسلم اسٹوڈنٹس کے داخلے پر تو کیا حشر ہوگا ہمارا؟ علی نوازش جیسے طالب علم جس نے پچھلے دنوں ایم بی اے کے جوبیس میں سے بائیس یا تیئس سبجیکٹس میں اے ون گریڈ حاصل کیا ہے، پاکستان مٰیں کوئی ایسی یونیورسٹی نہیں جو اسکے میرٹ کے مطابق اسے کسی سبجیکٹ میں اسپیشلائیزیشن کروا سکے، اسے کیمرج یونیورسٹی جانا پڑا، اور علی نوازش ہی کیا ہمارے جتنے بھی بڑے بڑے نام ہیں وہ سب اس وقت ہی لیچنڈ بنے ہیں جب وہ کفار ممالک سے تعلیم حاصل کر کے آئے ہیں، پھر چاہے وہ علامہ اقبال ہوں یا ڈاکڑ عبدالقدیر۔
یہ گو امریکہ گو جیسے بیہودہ اور غلیظ نعرے لگانا بہت آسان ہے اور علم سے قابلیت سے تحقیق سے ترقی سے فراست سے امریکہ کے قد کے برابر آنا بہت مشکل ہے، یہ بیہودہ لوگ ہمیشہ آسان کام ہی کرتے آئے ہیں اور آسان کام ہی کرتے رہیں گے، کیا مسلمان یورپ سے گو مسلم گو کے نعرے سن کر ہی نکلے تھے ؟ طاقتور کو گالی دینا فراست کی نہیں جہالت کی انتہا ہے پست اور شکست خوردہ ذہنیت کی علامت ہے.ان جانوروں کے دل میں زرا اللہ کا خوف نہیں آتا کے کیسے قوم کو ان بیہودہ اور لا حاصل نعروں میں الجھا کر اصل مقصد سے دور بہت دور رکھا ہوا ہے۔
فرض کرلیں کے آج امریکہ یکے بعد دیگرے تمام اٹھاون کی اٹھاون مسلم ریاستوں کو دو آپشن دیتا ہے کے یا تو عیسائیت قبول کرلو یا پھر آجاو میدان جنگ میں، ہے کوئی ایسی مسلم ریاست جو میدان جنگ میں مقابلہ کرسکے امریکہ کا؟ یہ ہی قاضی حسین احمد پادری حسین احمد بن کر کسی چرچ میں وعظ  دیتا نظر آئیگا، یہ ہی حال باقی کے ان مذہب فروشوں کا ہوگا جو آج قوم کو امریکہ کے خلاف بے مقصد نعروں میں الجھائے رکھتے ہیں۔
پچھلے دنوں خبر پڑھی کے کسی سعودی باشندے نے سات انڈوں پر پورا قران شریف لکھہ دیا، اس سے زیادہ ترقی وہ کر بھی نہیں سکتا ہے یہ معراج ہے اسکی ذہنی ترقی کی، جبکے کفار نے انڈوں پر توریت لکھنے جیسے فضول کام میں وقت برباد کرنے کے بجائے انڈے کی افادیت پر تحقیق کی اور ہم جیسے جاہلوں کے بتایا کے انڈے کی ذردی کی کیا افادیت ہے یا کسی مخصوص حالت میں ( بلڈ پریشر کے مریض کے لئیے ) زردی کے کیا نقصانات ہیں، اور انڈے کی سفیدی کی کیا افادیت ہے۔ اسے کہتے ہیں ایک مخصوص خول میں بند ذہن اور ایک آزاد اور ویژنری ذہن میں فرق۔
اللہ کا واسطہ ہے ایسے نام نہاد مذہبی رہنماوں کو کے اگر قوم کو فراست نہیں دے سکتے تو خدا کے واسطے جہالت بھی نہ دو، نہیں ہے تمہارے اندر وہ اہلیت کے تم قوم کو اسکی کھوئی ہوئی میراث لوٹا سکو، اس حقیقت کو مان لو اور جا کر غرق ہوجاو کہیں، آذاد کردو قوم کے ذہنوں کو تاکے یہ اپنے ذہنوں کو تمہارے دئیے ہوئے خول سے آذاد کر سکیں اتار کر پھینک دیں وہ آئی کیپ جو صدیوں سے تم نے انکی آنکھوں پر لگایا ہوا ہے۔
ازل سے اصول ہے بڑی مچھلی چھوٹی مچھلی کو کھاتی ہے، طاقتور کمزور کو دباتا ہے، طاقتور کا بے رحم رویہ قابل مذحمت، لیکن کمزور رہنے پر اسرار اس سے بھی زیادہ قابل مذحمت ہے، حدیث ہے کہ مومن کی فراست سے ڈرو، جبکہ آج دنیا مومن کی جہالت سے ڈرتی ہے۔

No comments:

Post a Comment