فدائی جاپان کے شمال مشرق میں واقع پہاڑوں کے درمیان ایک چھوٹا سا گاوں ہے جس میں تین ہزار کے قریب گھر ہیں، جاپان کے اس ہی شمال مشرق کے ساحل پر سونامی آیا جس نے بے انتہا تباہی مچائی اور ہزاروں کے تعداد سے لوگ ہلاک ہوئے، لیکن فدائی وہ خوش نصیب گاوں ہے جو سونامی کی اس تباہی سے مکمل طور پر محفوظ رہا۔
فدائی کسی معجزے یا تقدیر کی وجہ سے محفوظ نہیں رہا بلکے تدبیر کی وجہ سے محفوظ رہا، عشروں کے پار دیکھنے والی نگاہوں کی وجہ سے محفوظ رہا، اٹھارہ سو چھیانوے اور پھر انیس سو تینتیس کے سونامی کے بعد فدائی کے میئر جسکا نام کوٹاکو وامورا تھا، نے طے کیا کے کوئی ایسا راستہ نکالا جائے جس سے میرے لوگ آئندہ آنے والے سونامی سے محفوظ رہ سکیں، اس نے اپنی اس سوچ کو اپنی زندگی کا مقصد بنالیا اور طے کیا کے گاوں کے اس رخ پر جو کے سی فیسنگ تھا ایسی دیوار اور ایسا فلڈ گیٹ نصب کیا جائے جس سے ٹکرا کے سونامی کی لہریں گاوں کو بغیر کوئی نقصان پہنچائے واپس لوٹ جائیں۔
اپنے اس خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کے لئیے اس نے پہاڑی پتھروں سے تقریباَ پچپن فٹ اونچی اور کئی گز چوڑی دیوار تعمیر کی اور اس کے درمیان اتنا ہی بلند آہنی فلڈ گیٹ نصب کروایا، جس پر اس وقت آج کے حساب سے تقریباَ تیس ملین ڈالر خرچ ہوئے، سالوں کی محنت رنگ لائی اور انیس سو ستر میں یہ گیٹ اور دیوار مکمل طور پر تعمیر ہوگئے۔
اس وقت کچھہ لوگوں نے کوٹاکو وامورا کے اس اقدام کو احماقانا اور پیسے کا زیاں قرار دیا مگر کوٹاکو جانتا تھا کے اس پر اعتراض کرنے والے وہ لوگ ہیں جنہیں اپنی ناک سے آگے کچھہ نظر نہیں آتا وہ کیا عشروں کے پار دیکھیں گے۔
اس وقت کچھہ لوگوں نے کوٹاکو وامورا کے اس اقدام کو احماقانا اور پیسے کا زیاں قرار دیا مگر کوٹاکو جانتا تھا کے اس پر اعتراض کرنے والے وہ لوگ ہیں جنہیں اپنی ناک سے آگے کچھہ نظر نہیں آتا وہ کیا عشروں کے پار دیکھیں گے۔
آج تقریباَ چالیس سال بیت گئے اس گیٹ کو لگے پچھلے دنوں جو سونامی آیا اس میں بہت بڑی تباہی مچی ہزاروں کی تعداد میں لوگ ہلاک ہوئے مگر کوٹاکو کے چالیس سال پہلے کئے ہوئے اقدام کی وجہ سے فدائی کے لوگ سونامی سے بلکل محفوظ رہے، کوٹاکو اب اس دنیا میں نہیں رہا مگر آج جاپان میں ہر شخص معترف ہے کوٹاکو کے ویژن کا اور شکر گزار ہیں اپنے محسن کا کہ اسکے ویژن کی وجہ سے اسکی عشروں کے پار دیکھنے کی صلاحیت کی وجہ سے فدائی اتنی بڑی تباہی سے بچ گیا۔
اسے کہتے ہیں ویژن، اسے کہتے ہیں عشروں کے پار دیکھنے کی صلاحیت، اسے کہتے ہیں قوم کا سچہ محسن، اسے کہتے ہیں محب وطن،انہیں کہتے ہیں اشرف المخلوقات۔ جبکہ ہمارے جیسے معاشروں میں جہاں اپنے آج کے بارے میں کوئی سوچنے کو تیار نہیں وہاں آنے والے کل کے بارے میں کوئی کیا سوچے گا، جہاں بچپن سے ہی ذہنوں میں یہ غلاضت انڈیلی جاتی ہو ( سامان ہے سو برس کا پل کی خبر نہیں ) تو ایسے معاشرے کے بچے بڑے ہونے کے بعد کیا فکر کریں کے اپنی یا اپنی آنے والی نسلوں کے کل کے لئیے۔
جیسا دودھہ ہوتا ہے ویسا ہی مکھن ہوتا ہے، جیسے جاہل حکمران ویسے ہی جاہل عوام، جیسے زنگ آلود ذہنیت کے حامل مولوی حضرات ویسی ہی بند ذہنیت کے پیروکار۔ نیم کے درخت میں آم کبھی بھی نہیں اگ سکتے۔ بھیک اور امداد جس معاشرے میں باقائدہ صنت کی صورت اختیار کر گئی ہو وہ معاشرے اپنے قدموں پہ کبھی بھی کھڑے نہیں رہ سکتے، سیاسی جماعتیں اپنے امور چلانے کے لئیے فنڈز کی بھیک مانگتی ہیں، مذہبی جماعتیں جہاد کے نام پہ امداد بٹور رہے ہوتے ہیں، مولوی حضرات مسجد اور مدرسے کے نام پر بھیک مانگ رہے ہوتے ہیں، نہ صرف خود مانگ رہے ہوتے ہیں بلکے معصوم بچوں کے ہاتھہ میں کٹورا دے کر سڑکوں پہ چھوڑ دیا جاتا ہے، یعنی ابتداء ہی بھکاری پن سے ہوتی ہے، اور نعرے تو سنو انکے۔ سبق پھر پڑھہ صداقت کا شرافت کا دیانت کا۔ لیا جائے گا تجھہ سے کام دنیا کی امامت کا۔
حکمراں ملک چلانے کے لئیے دنیا سے بھیک مانگ رہے ہیں، اوپر سے نیچے تک پوری قوم بھکاری بن چکی ہے، بھکاری کا سب سے بڑا المیہ یہ ہوتا ہے کے اسکی دعا اسکے اپنے حق میں قبول نہیں ہوتی، اگر ہو رہی ہوتی تو بھکاری، بھکاری ہی نہ رہتا۔
صدر صاحب قوم کو بیوقوف بنانے کے لئیے دنیا سے کہتے ہیں کے ہمیں ایڈ نہیں ٹریڈ چاہئیے، ہم بناتے کیا ہیں جو ٹریڈ کریں گے؟ کوئی ایک ایسی چیز جو پوری دنیا میں صرف ہم بنا رہے ہوں اور پوری دنیا لائن لگا کر ہماری اس پروڈکٹ کی خریدار ہو؟ یہ تو اللہ کی مہربانی ہے کے زمین زرخیز ہے تو یہاں کچھہ اناج وغیرہ اگ جاتا ہے جو کے اپنی عوام کے لئیے کم پڑتا ہے، کسی بھی ملک کی معیشت اسکی ایکپورٹ سے مظبوط ہوتی، ہماری ایکسپورٹ بیس ارب ڈالر کی ہے یعنی بیس ارب ڈالر ہم دنیا سے پاکستان میں لے کر آتے ہیں، جبکہ ہماری امپورٹ تقریباَ بیالیس ارب ڈالر کی ہے، یعنی بیس ارب ڈالر آئے اور بیالیس ارب ڈالر واپس چلے گئے، اسے کہتے ہیں ٹریڈ ڈیفیسٹ۔
صدر صاحب قوم کو بیوقوف بنانے کے لئیے دنیا سے کہتے ہیں کے ہمیں ایڈ نہیں ٹریڈ چاہئیے، ہم بناتے کیا ہیں جو ٹریڈ کریں گے؟ کوئی ایک ایسی چیز جو پوری دنیا میں صرف ہم بنا رہے ہوں اور پوری دنیا لائن لگا کر ہماری اس پروڈکٹ کی خریدار ہو؟ یہ تو اللہ کی مہربانی ہے کے زمین زرخیز ہے تو یہاں کچھہ اناج وغیرہ اگ جاتا ہے جو کے اپنی عوام کے لئیے کم پڑتا ہے، کسی بھی ملک کی معیشت اسکی ایکپورٹ سے مظبوط ہوتی، ہماری ایکسپورٹ بیس ارب ڈالر کی ہے یعنی بیس ارب ڈالر ہم دنیا سے پاکستان میں لے کر آتے ہیں، جبکہ ہماری امپورٹ تقریباَ بیالیس ارب ڈالر کی ہے، یعنی بیس ارب ڈالر آئے اور بیالیس ارب ڈالر واپس چلے گئے، اسے کہتے ہیں ٹریڈ ڈیفیسٹ۔
ہم ایک کلو چاول انہیں ایکسپورٹ کرتے ہیں وہ ان ہی چاولوں کی چار کلو بریانی بنا کر واپس ہمیں ایکسپورٹ کردیتے ہیں، ہم کاٹن کا پورا جہاز بھر کے بھیجتے ہیں اور خوشی سے پھولے نہیں سماتے جبکہ وہ ایف سولہ طیارے کا ایک چھوٹا سا پرزہ ہمیں دے کر ہمارے پورے کاٹن کے جہاز سے کہیں زیادہ کی قیمت ہم سے وصول لیتا ہے۔ امپورٹ کسی بھی ملک کی معیشت پر بوجھہ کی حیثیت رکھتی ہے انتہائی ضروری اشیاء کی امپورٹ کی جانی جائیے جیسے کے لائف سیونگ ڈرگز پیڑول وغیرہ، جبکہ یہاں یہ حال ہے کہ، ائس کریم، چاکلیٹس، فلاورز، یہاں تک کے انڈر گارمنٹ تک امپورٹ کیئے جاتے ہر سال ایک سے ڈیڑھہ ارب ڈالر کے تو موبائل ہی امپورٹ کر لیتے ہیں ہم، جبکہ اس سے کہیں کم لاگت میں پوری موبائل انڈسڑی لگائی جاسکتی ہے یہاں، مگر یہ سب سوچے گا کون؟۔
اور پھر کس بات کی ٹریڈ کیا بھیجیں کے ہم ؟ بناتے ہی کیا ہیں ہم؟ دہشت گرد، خود کش بمبار، انتہاپسند، جاہل، اجڈ، گنوار، یہ ہیں ہماری مین پروڈکٹس اب انکے خریدار کہاں سے لائیں گے ہم ٹریڈ کرنے کے لئیے؟۔ جس قوم کو پیدا ہوتے ہی مرنے کا سبق پڑھایا جائے تو ایسی ہی سوچ اور ایسا ہی معاشرہ بناسکتی ہے ایسی قوم۔ لکھنے اور مثالیں دینے کے لئیے اور بہت کچھہ ہے مگر اتنا ہی ہضم ہوجائے لوگوں کو تو عافیت جانوں۔
No comments:
Post a Comment