عرب میں اسلام سے پہلے کے معاشرے میں ( جسکو جہالیہ کہا جاتا ہے ) مرد مکمل طور پر حاوی تھے اور عورتوں کی حیثیت معذور یا ناقص افراد کی سی تھے. مرد خواتین کو باقی اشیا کی طرح اپنی ملکیت تصور کرتے تھے. وہ انکو ناجائز طریقوں سے حاصل کر سکتے تھے ( خرید سکتے تھے )، استمال کر سکتے تھے، اور پھر اپنی مرضی کے مطابق کوڑا سمجھ کر بغیر کسی افسوس اور ندامت بے دردی سے پھینک سکتے تھے . خواتین کو لونڈیوں کے طور پر خریدا جا سکتا تھا جنکے کسی قسم کے کوئی حقوق نہ تھے. معاشرہ میں خواتین کے کھلے عام جنسی استحصال پر کوئی پکڑ یا روک ٹوک نہیں تھی. اسی طرح خواتین پر جسمانی تشدد، چاہے اسکی کوئی وجہ ہو یا نہ، بھی ایک معمول تھا. خواتین اپنی معاشرتی حالت کا دکھڑا لے کر کسی کے پاس نہیں جا سکتی تھے، کوئی انکی حالت بہتر بنانے والا نہ تھا، وو مکمل طور پر مردوں کے رحم و کرم پر تھیں.
جب عمر بن خطاب کو پتا چلا کہ انکی بہن نے اسلام قبول کر لیا ہے تو وہ انکے گھر گئے اورانکو بڑی بےرحمی سے زود وکوب کیا. جب انکے شوہر نے انکو بچانے کی کوشش کی تو انہوں نے انکو بھی خوب مارا. اور یہی واقعہ انکی زندگی میں نیا موڑ ثابت ہوا کیونکہ انہو نے کچھ ہی عرصے بعد خود بھی اسلام قبول کر لیا، مگر اسکا مقصد اپنی بہن پر کئے گئے ظلم کا کفارہ ادا کرنا ہرگز نہ تھا. خواتین کی طرف انکا رویہ اسلام قبول کرنے کے بعد بھی زیادہ تبدیل نہ ہوا. انکے اسلام قبول کرنے کے بعد کا کم سے کم ایک واقعہ تاریخ نے ضرور رقم کیا جسکے مطابق انھوں نے اپنی بیوی کو زوردار طمانچہ مارا تھا.

اسلامی معاشرے میں پردے کا تصور مختلف معاشرتی حالت کے مدنظر پیدا ہوا مگر اس سلسلے میں کسی کسم کی اصلاح کی کوشش کو قبول نہیں کیا جاتا.
اس پس منظر میں، حضرت محمّد نے فاسق معاشرے کی اصلاح کی ٹھانی. اس زمانے میں جب لوگ کھلے عام بغیر کسی پکڑ اور ندامانی کے زیادتیاں کرنے کے عادی تھے، نبی کی مسلمانوں کو کی گیئں ہدایات کافی سخت اور شدید نوعیت کی سمجھی گیئں. وہ آزاد ہم بستری اور بے قابو شراب پینے کے عادی تھے، اسلام نے انکو چار بیویوں تک محدود کیا اور پھر شراب نوشی کو بھی ممنوعہ قرار دے دیا. طلاق، وراثت اورطلاق یافتہ بیویوں کی تلافی کے باقاعدہ اصول اور قوانین بتائے گئے. اسلام سے پہلے کے معاشرے میں، باپ کے مرنے کے بعد مرد جانشین کو جو وراثت ملتی، خواتین کو بھی اسکا حصہ سمجھا جاتا تھا. باپ کے مرنے کے بعد، عام طور پر سب سے بڑا بیٹا اپنی سوتیلی ماں سے شادی کرتا.
اسلام کی متعارف کردہ اصلاحات اس زمانے کے لحاظ سے انقلابانہ تھیں مگر اصلاح پسندی کا یہ عمل حضرت محمّد کے جانے کے بعد رک گیا. ان اصلاحات کی مزید ارتقا کو والیوں اور مذہبی جانشینوں نے یہ کہ کر رد کر دیا کہ قرانی حُکم اِمتناعی کے بعد اصلاح کی ضرورت باقی نہیں. قرآن خدائی فرمان ہے اور کسی کو اختیار نہیں کہ وہ اس میں تبدیلی لائے. قرانی احکامات کی تشریح کو بھی خوشی سے تسلیم نہیں کیا گیا اور نہ ہی عملی طور پر اسکو ٹھیک سمجھا جاتا ہے. اکثر اوقات تو قرانی احکامات پر شریعت کو فوقیت دی جاتی ہے. اس سے الجھنیں پیدا ہوتی ہیں کیونکہ شریعت کی بنیاد احادیث ہیں جنکے مستند ہونے پر شکوک و شبہات ہمیشہ سے موجود رہے ہیں اور ان پر سوال بھی اٹھائے جاتے رہے ہیں.
تاہم، عرب میں سبھی عورتیں اتنی بدنصیب اور محروم نہیں تھیں. ایسی خواتین بھی موجود تھیں جنکے پاس مال دولت تھی، اپنا کاروبار تھا، جو اپنی زندگی اور اسکے معمولات میں خود مختار تھیں. پر ایسی خواتین بہت کم تھیں. حضرت محمّد کی پہلی بیوی، خدیجہ، جنھوں نے حضرت محمّد کو اپنا کاروبار سمبھالنے کیلئے ملازمت دے رکھی تھی، ان میں سے ایک تھیں. اشراف کی بیویوں کا معاشرتی رتبہ محض انکے شوہروں کی وجہ سے تھا.عموماً خواتین کی حالت کافی درد انگیز تھی.
پردے کی مسلم معاشرے میں آمد
نقاب کی مسلم معاشرے میں آمد دو مختلف مراحل میں ہوئی. عرب میں اسلام آنے کے بعد بھی یہ عام روایت تھی کہ لوگ کسی کے ہاں ملنے جلنے یا کسی کام سے کسی بھی وقت بن بلائے چلے جاتے تھے. وہ گھر کے مالک سے گھر میں داخل ہونے کی اجازت مانگنا تک گوارا نہ کرتے تھے. وہ بیٹھتے، گپیں لگاتے اور اس بات کا بالکل خیال نہ کرتے کہ وقت کسی کی گھر جانے کیلئے مناسب ہیں بھی یا نہیں، انکو وہاں بلایا بھی گیا ہے یا نہیں یا کہ کتنا وقت وہاں گزرنا چاہیے. یہ ایک روایت بن گئی تھی اور یہ حالات اکثر میزبان کے لئے مسلہ بن جاتے.
جب حضرت محمّد نے زینب بنت جحش سے شادی کی تو انھوں نے تمام مسلمانوں کو اپنے گھر شادی کی دعوت پر بلایا. ان کے خِدمت گار انس ابن ملک اس قصے کو یوں بیان کرتے ہیں:
نبی کی زینب بنت جحش سے شادی ہو چکی تھی. مجھے زمیداری دی گی کہ میں لوگوں کو شادی کے کھانے کی دعوت دوں. میں نے ایسا ہے کیا. بہت سے لوگ آئے. وہ ایک کے بعد ایک گروہ کی شکل میں آئے. وہ کھانا کھاتے اور چلے جاتے. ایک وقت آیا جب نبی نے کہا: دعوت ختم کر دو. زینب کمرے کے ایک کونے میں بیٹھی تھیں. وہ بہت خوبصورت عورت تھیں. 3 افراد کے علاوہ باقی سب چلے گئے مگر وہ بلا جھجھک تغافُل شِعار سے بیٹھے رہے اور گپیں لگاتے رہے. ناراض اور پریشان ہو کر نبی کمرے سے اٹھ کر چلے گئے. وہ عائشہ کے حجرے میں گئے… انہوں کے اپنی بیویوں کے حجروں کا دورہ کا چکر لگایا…. آخر کار وہ زینب کے کمرے میں واپس آئے اور دیکھا کہ وہ تین مہمان ابھی تک نہیں گئے. نبی نہایت شائستہ اور نرم مزاج انسان تھے. وو پھر کمرے سے نکل کر عائشہ کے حجرے میں چلے گئے. مجھے یہ یاد نہیں کے میں یا کوئی اور تھا جو نبی کو یہ بتانے گیا کہ وہ تین افراد آخرکار رخصت لے چکے.خیر، وہ عروسی حجرے میں واپس آئے. انھوں نے ایک قدم کمرے کے اندر رکھا اور دوسرا باہر. انھوں نے اس حالت میں اپنے اور میرے درمیان پردہ گرا دیا اور حجاب کی آیات اس مرحلے پر نازل ہوئی. (1)
اوپر حوالہ دی گئی آیت قرآن کی سورہ احزاب کی آیت نمبر 53 ہے:
مومنو پیغمبر کے گھروں میں نہ جایا کرو مگر اس صورت میں کہ تم کو کھانے کے لئے اجازت دی جائے اور اس کے پکنے کا انتظار بھی نہ کرنا پڑے۔ لیکن جب تمہاری دعوت کی جائے تو جاؤ اور جب کھانا کھاچکو تو چل دو اور باتوں میں جی لگا کر نہ بیٹھ رہو۔ یہ بات پیغمبر کو ایذا دیتی ہے۔ اور وہ تم سے شرم کرتے ہیں (اور کہتے نہیں ہیں) لیکن خدا سچی بات کے کہنے سے شرم نہیں کرتا۔ اور جب پیغمبروں کی بیویوں سے کوئی سامان مانگو تو پردے کے باہر مانگو۔ یہ تمہارے اور ان کے دونوں کے دلوں کے لئے بہت پاکیزگی کی بات ہے۔ اور تم کو یہ شایاں نہیں کہ پیغمبر خدا کو تکلیف دو اور نہ یہ کہ ان کی بیویوں سے کبھی ان کے بعد نکاح کرو۔ بےشک یہ خدا کے نزدیک بڑا (گناہ کا کام) ہے.
ملاقاتیوں اور نبی کی بیویوں کے درمیان پردے کی ہدایت تمام مسلم بیویوں کے لئے ایک عام عمل بن گیا. اس آیات کا آخری حصہ اس قصے سے کٹا ہوا لگتا ہے مگر اسکو اس وقت کے حالات کو مدنظر رکھ کر دیکھا جائے تو بہتر سمجھ آتی ہے. عرب اس زمانے میں اپنے روز مرہ کے معمول میں کافی بے لاگ اور غل مچانے والے تھے. کچھ نامعقول تو سرے عام یہ اعلان کرتے پھرتے تھے کہ وہ نبی کی بیواؤں سے جلد شادی کریں گے. آیت کا آخری حصہ نبی کی بیویوں کا باقی مسلمانوں سے تعلق کے لحاظ سے معاشرتی حالت پر روشنی ڈالتا ہے. بعد میں نبی کی بیویوں کو امہات المومنین کہ کر پکارا گیا تاکہ شک و شبہ کی گنجائش نہ رہے.
مسلم معاشرے میں نقاب کی آمد کا دوسرا حصہ
مسلم معاشرے میں نقاب کی آمد کا دوسرا حصہ، جسکو آج کل حجاب کہا جاتا ہے، مدینہ میں موجود کچھ ضدی نوعمر خطار کار مردوں سے جڑا ہے. فاطمہ مرنیسی کے مطابق:
خواتین، چاہے انکا رتبہ کچھ بھی ہوتا، کو گلیوں میں ہراساں اور زچ کیا جاتا تھا. یہ مرد انکا تعقب کرتے اور ‘تارود’ جیسی ذلت آمیز حرکت سے انکو محکوم کرنے کی کوشش کرتے. وہ عورتوں کے راستے میں آ کر کھڑے ہو جاتے اور زبردستی ان سے زنا کرنے کا کہتے. اس وقت پر نبی کے پاس مکمل - بِلا حُجَت - حاکمیت نہیں تھی لہٰذا انکے لئے مسلہ عورتوں کو قبل اسلام تشدد سے چھٹکارا دلانا نہیں تھا بلکہ اپنی بیویوں اور شہر میں دیگر مسلمانوں کی بیویوں کی حفاظت کو ایک ایسے شہر میں یقینی بنانا تھا جو بداندیش، شدت پسند اور بے قابو تھا. (2)
جب نبی نے قاصدوں کو بھیج کر ان وباش مردوں سے پوچھا کہ وہ عورتوں کو ایسے کیوں ستاتے ہیں تو انہو نے جواب دیا: “ ہم صرف ان خواتین سے تارود کرتے ہیں جنکو ہم لونڈی سمجھتے ہیں.” (2) لہٰذا انہوں نے عورتوں کی شناخت کو بہانہ بنا کر اپنی جان چھڑا لی.
ان حالات میں، خدا نے سوره احزاب کی آیت نمبر 59 نازل کی تاکہ مسلم خواتین کی شناخت میں کوئی مسلہ نہ ہو. آیت کے الفاظ یہ ہیں:
اے پیغمبر اپنی بیویوں اور بیٹیوں اور مسلمانوں کی عورتوں سے کہہ دو کہ (باہر نکلا کریں تو) اپنے پر چادر لٹکا لیا کریں۔ یہ امر ان کے لئے موجب شناخت (وامتیاز) ہوگا تو کوئی ان کو ایذا نہ دے گا۔ اور خدا بخشنے والا مہربان ہے.
مسلم خواتین پردے کے لئے جو لباس استمال کرتیں، اسکو جلباب کہا گیا. آج کی مسلم خواتین جو حجاب استمال کرتی ہیں، وہ جلباب سے تو مختلف ہے مگر اسکا مقصد وہی ہے جیسے کہ اوپر بیان کیا گیا. مسلم خواتین کے گھر سے باہر معاشرتی رویوں، چال ڈھال اور لباس سے متعلق مزید تفصیل سوره نور کی آیت نمبر 31 میں بیان کی گئی:
اور مومن عورتوں سے بھی کہہ دو کہ وہ بھی اپنی نگاہیں نیچی رکھا کریں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کیا کریں اور اپنی آرائش (یعنی زیور کے مقامات) کو ظاہر نہ ہونے دیا کریں مگر جو ان میں سے کھلا رہتا ہو۔ اور اپنے سینوں پر اوڑھنیاں اوڑھے رہا کریں اور اپنے خاوند اور باپ اور خسر اور بیٹیوں اور خاوند کے بیٹوں اور بھائیوں اور بھتیجیوں اور بھانجوں اور اپنی (ہی قسم کی) عورتوں اور لونڈی غلاموں کے سوا نیز ان خدام کے جو عورتوں کی خواہش نہ رکھیں یا ایسے لڑکوں کے جو عورتوں کے پردے کی چیزوں سے واقف نہ ہوں (غرض ان لوگوں کے سوا) کسی پر اپنی زینت (اور سنگار کے مقامات) کو ظاہر نہ ہونے دیں۔ اور اپنے پاؤں (ایسے طور سے زمین پر) نہ ماریں (کہ جھنکار کانوں میں پہنچے اور) ان کا پوشیدہ زیور معلوم ہوجائے۔ اور مومنو! سب خدا کے آگے توبہ کرو تاکہ فلاح پاؤ
فتح مکّہ کے بعد مسلمان عرب کے عملی طور پر مکمل حاکم بن گئے اور مدینہ کے معاشرتی حالات بھی خواتین کے لئے دھمکی آمیز نہ رہے مگر چونکہ حجاب کا حکم باقاعدہ طور پر قرآن میں آیا تھا لہٰذا واپسی کا کوئی راستہ نہ تھا اور ناقابِلِ تَنسيخ طَور پَر مسلم دنیا میں موجود رہا. اس پر تبصرہ کرتے ہے فاطمہ مرسینی لکھتی ہیں:
خواتین کے لئے اس شہر میں زندگی دوبارہ کبھی محفوظ نہ ہو سکی. اگر وقت کا دھارا موڑنا ممکن ہوتا تو شائد مدینہ کی حیثیت خواتین کے لئے ایک ظالم شہر کی سی نہ ہوتی مگرافسوس یہ صرف فسانہ ہی ہو سکتا ہے. تب سے یہ خواتین کا مقدار ٹھہرا ہے کہ غیر محفوظ شہروں کی گلیوں میں انھیں نہایت احتیاط سے کالے جلباب میں ملبوس گھومنا پڑتا ہے. پردہ، جسکا اصل مقصد انکی حفاظت کرنا تھا، ایک ایسی ضروری روایت بن گیا ہے جو کہ انکے ساتھ کئی صدیوں تک رہے گی، چاہے حالت محفوظ ہوں یا نہیں. (3)
مغربی دنیا میں حجاب

فاطمہ مرسینی جیسی بہت کم لکھاری ہیں جو کہ مسلم خواتین کو یہ شعور دیتی ہیں کہ انکو اپنے حقوق کے لئے لڑنا چاہیے
گزشتہ کچھ صدیوں سے عرب ممالک میں حجاب مسلم خواتین کے روز مرہ لباس کا حصہ بن گیا ہے.اسکو خواتین کے استحصال کا اصولی اوزار بھی نہیں کہا جا سکتا کیونکہ کچھ خواتین اسکو باقائدگی سے اور اپنی مرضی سے پہنتی ہیں. اگر یہ اجیرن، نہ مناسب یا ذلت آمیز ہوتا تو خاص طور پر مغربی ممالک میں بہت سی مسلم خواتین اسکو اتار پھینکتی اور وہیں اسکا
خاتمہ ہو جاتا. مسلمان مردوں نے ارادتاً ہمیشہ سے اپنی خواتین کو ثانوی اور کم درجے کی
خاتمہ ہو جاتا. مسلمان مردوں نے ارادتاً ہمیشہ سے اپنی خواتین کو ثانوی اور کم درجے کی
حیثیت میں رکھا ہے. یہ نقطہ مغربی دنیا کے حوالے سے کافی غیر اہم ہے چونکہ وہاں آباد کاروں نے خود ہی آباد ہونے اور اپنے خاندان بسانے کا فیصلہ کیا.
مسلم ثقافت اور اقتدار کے ڈھانچے میں کم سے کم تصوری طور پر طاقت کے دو سر چشمے ہیں : خلیفہ جو کہ سیاسی طاقت اور اقتدار پر غالب ہوتا ہے اور امام جو کہ مذھبی اور روحانی پیشوا ہوتا ہے. فاطمہ مرسینی کے مطابق :
قرآن کے نزول کی زبان عربی کے یہ دونوں الفاظ، خلیفہ اور امام، جو کہ طاقت اور اقتدار کے تصور کو خود میں سموئے ہوے ہیں کی کوئی زنانہ شکل نہیں ہے. لسان العرب لغت واضح طور پر بیان کرتی ہے کہ خلیفہ کا لفظ صرف مردانہ طور پر - یا مرد کے لئے ہی – استمال ہو سکتا ہے. (4)
لہذا ایک خاتون کا کسی مسلم ریاست کا سربراہ بننے کا مسلہ بحث پکڑتا ہے. ضیاء الحق کر مرنے کے بعد جب بینظیر بھٹو پاکستان کی سربراہ بنیں تو یہ بحث کھل کر سامنے آئی اور اس پر بحس و مباحثے ہونے لگے. مسلم دنیا میں بہت کم مسلمان خاتون لیڈر اور دانشور ہوں گی جو کہ خواتین کے حقوق اور جنسوں کی برابری کے لئے جدوجہد کریں. اسی طرح، فاطمہ مرسینی جیسی بہت کم لکھاری ہیں جو کہ مسلم خواتین کو یہ شعور دیتی ہیں کہ انکو اپنے حقوق کے لئے لڑنا چاہیے.
مغربی دنیا میں حجاب محض عرب یا اسلامی ثقافت کی ایک علامت بن کر رہ جاتا ہے جسکو پہننے والا اسے بچا کر رکھنا چاہتا ہے. یہ بلکل اس شناختی علامت کی طرح ہے جسکو مدینہ کی عورتوں نے اوباش مردوں کے ہاتھوں ہراساں ہونے سے بچنے کے لئے استمال کرنا شروع کیا. بد قسمتی سے بہت سے مغربی ممالک میں جو کہ مسلم ثقافت کے بارے میں وسوسوں کا شکار ہیں، وہاں یہ ایک سیاسی مسلہ بن گیا ہے . اس مخالفت کے رد عمل کے طور پر، بہت سی مسلم خواتین جو کہ عرب نہیں ہیں، انہوں نے بھی حجاب پہننا شروع کر دیا ہے تاکہ وہ اپنی مسلم شناخت کو جتا سکیں. ایک کثیر ثقافتی معاشرہ منفرد اور مختلف معاشرہ ہوتا ہے مگر اسکا مطلب بالضروریہ نہیں ہوتا کہ اسکو باضابطہ بنانے کی ضرورت نہیں. مگر یہ ضرور ہے کہ یہ ضابطےمعتدل اور متحمل ہونے چاہییں اور کوشش یہ ہونی چاہیے کہ منفرد ثقافتی اظہار کو کوئی ٹھیس نہ پہنچے.مغربی دنیا میں حجاب اور جلباب پر بحث تب تک جاری رہے گی جب تک آباد کاروں پر مکمل اعتماد نہیں کر لیا جاتا اور انکی طرف حقارت کے جذبات کو ہمیشہ کے لئے دفن نہیں کر دیا جاتا
No comments:
Post a Comment