Tuesday, 16 August 2011

ہم غلط فہمی کا شکار ہیں ||پاکستانی معاشرہ


کچھہ لوگوں کو اب تک یہ غلط فہمی ہے کے ہم پاکستانی اخلاقی طور پر غیر مسلموں سے کہیں بہتر ہیں، میری تو سمجھہ یہ بات نہیں آتی کہ ہم اخلاقی طور پر ان سے کیسے بہتر ہیں، جو کام وہ سر عام کرتے ہیں وہ ہی سب کام ہمارے معاشرے میں چوری چھپے ہوتے ہیں اور کئی مسلم ممالک میں تو سر عام ہی ہوتے ہیں، دبئی مصر لبنان وغیرہ کی مثال سب کے سامنے ہے۔
ایک غلط فہمی اور ہے کہ ہم نے اخلاقیات کو محض شراب نوشی اور عریانیت سے وابسطہ کردیا ہے، ارے بھائی قانون پر عمل کرنا بھی اخلاقیات کے زمرے میں ہی آتا ہے، کسی بھی قوم کی اخلاقی حالت جاننے کے لئیے تو اتنا ہی کافی ہے کے اس کے ٹریفک سگنلز پر کھڑے ہوکر مشاہدہ کرلو اندازہ ہو جائے گا کے اس قوم کی اخلاقی پستی کی کیا حالت ہے، ان کے ہاں ہر خاص و عام قانون کا احترام کرتا ہے جبکہ ہمارے ہاں کوئی ایک بھی ایسا پاکستانی نہیں جو کسی نا کسی صورت ہر روز قانون شکنی نہ کر رہا ہو، غریب سے لے کر امیر تک ہر شخص نے اپنی اپنی حیثیت کے مطابق قانون کو رنڈی بنا کے رکھا ہوا ہے، جسکی جتنی حیثیت ہے وہ اتنی ہی قانون شکنی کرتا ہے جسکی حیثیت دس روپے کی ہے وہ دس روپے دے کر قانون کے ساتھہ زنا کر رہا ہے اور جسکی حیثیت دس لاکھہ کی ہے وہ دس لاکھہ دے کر قانون کے ساتھہ زنا کر رہا ہے۔
رہی بات شراب اور زنا کاری کی تو وہ تو مسلم ممالک میں بھی ہوتے ہیں، کہیں کھلے اور کہیں ڈھکے چھپے، شراب تو سعودیہ عرب میں بھی با آسانی دستیاب ہے۔ وہ لوگ زنا شخصی آذادی کے نام پر کررہے ہیں تو ہم کونسے کم ہیں ان سے، ونی اور کاری ہمارے ہاں کیا جاتا ہے، انتقام لینے کے لئیے عورتوں کے سر عام برہنہ کر کے ہمارے ہاں پھرایا جاتا ہے، پانچ پانچ سال کی معصوم بچیوں کے ساتھہ ہمارے ہاں زنا کاری کی جاتی ہے، انسان تو انسان جانوروں اور ہیجڑوں تک کو نہیں چھوڑتے ہم عنیقہ ناز نے اپنی آخری تحریر میں اس طرف اشارہ کیا ہے یہ بلکل صحیح بات ہے یہ سب ہمارے معاشرے میں ہی ہوریا ہے.
میں کسی قوم کسی صوبے کا نام نہیں لینا چاہتا کہ یہ سب ہر قوم اور ہر صوبے کے لوگ کر رہے ہیں میں نے اپنی آنکھوں سے بغل بچے کے لئیے ایک دوسرے کو دست گریبان یہاں تک کے فائرنگ ہوتے دیکھی ہے، بڑے تباک سے بڑے فخر کے ساتھہ لڑکے کو بغل میں بٹھا کے علاقے میں گھوما جاتا ہے یہاں تک کے ایک وڈیرا دوسرے وڈیرے کو تحفے میں لڑکا دیتا ہے یہ سب کہیں اور نہیں ہمارے معاشرے میں ہی ہورہا ہے یہ ہم عظیم مسلمان عظیم پاکستانی ہی کر رہے ہیں۔
الحاج فلاں فلاں فلاں بڑے بڑے ناموں کی تختیاں گھر کے باہر لگائی ہوتی ہیں اور گھر میں بچلی چوری کی استعمال ہوری ہوتی ہے، گوشت انہیں پوری طرح سے اسلامی طریقے کے مطابق حلال کیئے ہوئے جانور کا چاہئیے ہوتا ہے مگر جس پیسے سے وہ حلال گوشت خرید رہے ہیں کبھی اس طرف نہیں سوچتے کے یہ پیسے بھی حلال ہیں یا نہیں، بس جانور ذبح ہوتے وقت اللہ ہواکبر کہنا لازمی ہے باقی سب اللہ معاف کردے گا.
بڑے بڑے حاجیوں کی دکانوں پر لکھا ہوتا ہے خریدا ہوا مال واپس یا تبدیل نہیں کیا جائے گا جبکہ یہ عین غیر اسلامی فعل ہے مگر اس پر کسی کا دھیان نہیں جاتا، جھوٹ، چوری، دھوکہ، دغا، رشوت، سود، ملاوٹ، حرام کاری، کم تولنا، نقض چھپا کے بیچنا، وطن فروشی کرنا، اسلام فروشی کرنا، ملک سے غداری کرنا، ایسی کونسی برائی ہے جو پاکستان میں پریکٹس نہیں ہورہی، پھر بھی یہ امتیاز کے ہم سب سے بہتر ہیں ہم اعلیٰ اقدار کے حامل ہیں، ہوسکتا ہے کچھہ لوگوں کے نزدیک یہ سب کچھہ ہی اسلامی اقدار ہوں مگر حقیقت اس سے کہیں مختلف ہے۔
شراب، ٹھرا، ادھا پوا، بمباٹ، یہ سب کون پی رہا ہے؟ یہ کون لوگ ہیں جو زہریلی شراب پی کر آئے دن مرے پڑے ہوتے ہیں؟۔ اخلاقیات کا بے کار کا ڈھنڈورا پیٹنے والے ہی کر رہے ہیں یہ سب۔ وہ پھر بھی ہم سے بہتر ہیں کے جو کر رہے ہیں سر عام کر رہے ہیں دنیا سے چھپ کر نہیں کر رہے، ہم تو منافق ہیں کے کام سارے وہ ہی کر رہے ہیں مگر چھپ کر اور دنیا کے آگے پارسہ بنتے ہیں۔
نہ صرف عوام بلکے مسلم ممالک کے حکمران تک ایک نمبر کے عیاش ہیں، یہ سولہ سترہ سال کی معصوم لڑکیاں عرب ممالک سے شیخ کیا انہیں حچ کروانے کے لئیے خرید کے لے کر جاتے ہیں ؟ کونسا ایسا عرب حکمران ہے جسکے حرم میں سو دو سو بیویوں نہیں ہیں۔ نکاح نامے کو زنا کا سرٹیفکٹ بنا کے رکھا ہوا ہے ان لوگوں نے، پھر بھی یہ بہیودہ پروپیگنڈا کے ہم سب سے عظیم ہیں ہم جنت کے حقدار ہیں، کسے جنت میں جانا ہے اور کسے جہنم میں یہ اللہ کا کام ہے اللہ پر ہی چھوڑ دو بھائی، اور دوسروں کی اخلاقیات پر انگلیاں اٹھانے سے پہلے اپنے گریبانوں میں جھانک لو کے ہم مسلمان کیا کر رہے ہیں

No comments:

Post a Comment